loading...

Thursday 16 July 2015

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

حضرت انسان نے جب سے زمیں پر ہوش سنبھالا ہے تب سے اپنے اردگرد کے بارے جستجو اور تحقیق اس کی طبیعت کا خاصہ رہی ہے چاہے وہ زمیں کے کوئی پوشیدہ راز ہوں یا خلا کی وسعتوں میں پہناں کوئی بات ہو، انسانی سوچ ہمیشہ اس کو مسخر کرنے پر تلی ہے۔
Solar System

جیسے خلا کی اپنی وسعتوں کی انتہا نہیں ویسے ہی انسان کی کھوج اور تحقیق اس کے کسی ایک نقطہ تک محدود نہیں ہے۔ یہ انسان کی جستجو اور مسلسل تحقیق کا ہی نتیجہ ہے کہ آج زمین پر بیٹھ کر وہ خلا کی وسعتوں میں اربوں میل دور نئی دنیا دریافت کرنے کے قریب ہے۔ جی ہاں آج ہم نظام شمسی کے آخری سیارے پلوٹو تک پہنچ چکے ہیں۔ زمین سے پانچ ارب میل دور سیارہ پلوٹو کو آج سے 85 سال قبل ایک امریکی سائینسدان نے ٹیلی اسکوپ کے ذریعہ دریافت کیا تھا جو کہ کینساس میں ایک کسان کا بیٹا تھا۔
پلوٹو کا مختصر سا تعارف کروادیں آپ کو۔ یہ سیارہ اپنی دریافت کے وقت ٹیلی اسکوپ سے نیپچون کے مدار سے باہر ایک روشنی کا مبہم سا دھبہ دکھتا تھا۔ پلوٹو کا قطر 2770 کلومیٹر ہے اور اس کے اپنے پانچ چاند ’’ہائڈرا، نکس، اسٹائکس اور کیربیروس ہیں۔ خیال رہے کہ سینکڑوں کلومیٹر چوڑی برف سے ڈھكے چٹانی سیارے پلوٹو سے 2006 میں ماہر فلکیات نے سیارے کا درجہ چھین لیا تھا لیکن دوسرے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس سے ان کے عزم پر کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔
اگر بات کی جائے پلوٹو کی طرف بھیجے جانے والے خلائی جہاز کے نام کی تو اسے محض اتفاق کہیے یا کچھ اور، بہرحال جب میں خلائی جہاز ’’New Horizons‘‘ (نئے افق کی تلاش میں) کا نام سنا تو علامہ اقبال کی نظم کی کچھ لائینں مجھے یاد آگئیں،
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
15 سال کی انتھک محنت اور منصوبہ بندی سے تیز ترین خلائی جہاز ’’نیوہورائزنز‘‘ کو تخلیق کیا گیا، جو کہ 30000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرسکتا ہے اور اپنے نام کے جیسا ہی مشن رکھتا ہے یعنی اس کو نظام شمسی کے اس پار نئے جہانوں کی تلاش کے لیے تخلیق کیا گیا جوکہ اب بھی اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ ’’نیو ہورائزنز‘‘ نے جنوری 2006 میں زمین سے سفر شروع کیا اور آج تقریباً 10 برس میں پانچ ارب کلومیٹر کا سفر طے کرکے پلوٹو تک پہنچا ہے۔ جبکہ پلوٹو کے پاس سے گزرتے ہوئے نیو ہورائزنز کی رفتار 14 کلومیٹر فی سیکنڈ تھی۔ خاص بات یہ کہ اتنی تیز ترین رفتار میں بھی خلائی جہاز کا کیمرا بہترین قسم کی تصاویر بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ اپنی اتنی تیز ترین رفتار کی وجہ  اگر خلائی جہاز کا ٹکراؤ چاول کے دانے کے جیسے کسی ذرے سے بھی ہوجائے تو یہ ناکارہ ہوسکتا ہے۔ بہرحال اب یہ زمین سے تقریباً 4.10 بلین کلومیٹر دور ہے جہاں سے زمین تک ریڈیو سگنل بھیجنے میں ساڑھے چار گھنٹے لگتے ہیں یعنی اگر وہاں سے ابھی تصویر کھینچ کر آپ کو بھیجی جائے تو وہ زمین تک وصول ہونے میں گھنٹوں کا دورنیہ لگ سکتا ہے۔ اس وجہ سے سارے مشن کیلیے خلائی جہاز کو پہلے کمانڈز دے دی گئیں تھیں کیونکہ اسے زمین سے ڈائریکٹ کنٹرول کرنا مشکل ہے۔ نیوہورائزنز کا بخیر و خوبی پلوٹو تک پہنچنا کسی معجزے سے کم نہیں تھا کیونکہ کچھ ہفتے قبل اس میں تکنیکی خرابی پیدا ہوگئی تھی اور اس کے کمپیوٹر میں آنے والی خرابی کی وجہ سے ناسا کا اس خلائی جہاز سے رابطہ بھی عارضی طور پر ٹوٹ گیا تھا اور سائنسدان اس سے کسی قسم کا سائنسی ڈیٹا وصول نہیں کر پارہے تھے۔ تکنیکی خرابی کو دور کرنے کیلیے ناسا ماہرین نے کافی محنت کی اور اس وقت ماہرین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی جب اچانک خلائی جہاز کے کمپیوٹر نے ٹھیک سے کام کرنا شروع کردیا۔
نیو ہورائزنز منگل 14 جولائی کو گرینچ کے معیاری وقت کے مطابق صبح 11 بج کر 50 منٹ پر اس سیارے کے قریب ترین پہنچا اور اس کا پلوٹو سے قریب ترین فاصلہ صرف 7750 میل تھا۔ آسان لفظوں میں آپ اس فاصلے کو اسلام آباد سے نیویارک تک مکمل فاصلہ سمجھ سکتے ہیں اور یہی وہ فاصلہ ہے جسے برقرار رکھتے ہوئے خلائی جہاز نے اس کی مسلسل اور تفصیلی تصویر کشی کی اور ضروری معلومات کے ساتھ ان تصاویر کو زمین پر بھیجا۔ اب تک ناسا ماہرین کے پاس سیارے کی بہت خاص قسم کی واضح تصاویر کا خزانہ دستیاب ہوگا جو یقیناً لوگوں کی دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے جلد شائع کردی جائیں گی۔
واشنگٹن میں ناسا کے سائنس مشن ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ
’’آج اس مشن کی کامیابی سائنس کی نظام شمسی کے اُس پار ایک عظیم چھلانگ ہے جو کہ پلوٹو کے اپنے نظام اور نظام شمسی کے ماخذ کو بہتر سمجھنے میں ہماری مددگار رہے گی‘‘۔
جب تک آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تب تک ’’نیوہورائزنز‘‘ پلوٹو سے کروڑوں میل دور مزید ’’نئے جہانوں‘‘ کی تلاش میں نکل چکا ہوگا اور انتظار کریں اس دن کا جب یہ کائنات کے بارے مزید چونکا دینے والے حقائق سے آپ کو آشکار کرے گا۔
کیا آپ مسلسل انسانی ترقی کے حق میں ہیں؟Bottom of Form


No comments:

Post a Comment

loading...